حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے دنیا میں کیا تھا


تخلیق آدم علیہ السلام سے پہلے کی دنیا

زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے کیا تھا، اللہ تعالی کا عرش کہاں تھا، اللہ تعالی نے زمین و آسمان اور پہاڑوں اور درختوں کو کتنے دنوں میں پیدا کیا، کون سی چیز کس دن پیدا کی گئی، اور کون سی چیز سب سے پہلے پیدا کی گئی، فرشتے جن اور انسان کس چیز سے پیدا ہوئے انسانوں اور جنوں کی تخلیق کا مقصد کیا ہے ابلیس کون تھا اللہ فرماتا ہے اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، اللہ تعالی وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا مزید اللہ تعالی سورہ حدید میں آیت چار میں فرماتا ہے وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا وہ خوب جانتا ہے اس چیز کو جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسمان سے نیچے آئے اور جو کچھ اس میں چڑھ کر جائے اور جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اسی طرح اللہ تعالی سورہ ھود آیت نمبر سات میں فرماتا ہے اور اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے چھ دنوں میں آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا اور اس کا عرش پانی پر تھا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالی نے ابو رزین عقیلی سے بیان کیا ہے انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پہلے ہمارا پروردگار کہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امہ میں تھا یعنی اللہ کے سوا کچھ بھی نہ تھا نہ اس کے اوپر ہوا تھی اور نہ اس کے نیچے ہوا تھی مطلب یہ کہ کچھ نہ تھا پھر اس نے پانی پر اپنا عرش پیدا کیا گویا یہ تھی مخلوق کی ابتدا امام ترمذی امام احمد، امام ابو داؤد اور بہت سے دوسرے محدثین رحمھم اللہ نے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بیان کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے بلاشبہ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا پھر اللہ نے اس کو حکم دیا کہ لکھ چونچے وہ اسی وقت چل پڑا اور قیامت کے دن تک ہونے والی ہر چیز لکھ دی یہ اللہ تعالی کا علم تھا جس کو قلم نے اس کے حکم کے مطابق لوح محفوظ پر لکھا امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بیان کی ہے اس میں سب سے پہلی چیز کے بارے میں وضاحت کی ہے اور جمہور فقہاء کی رائے بھی یہی ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے اللہ تعالی نے آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے تمام مخلوقات کی تقدیر لکھ دی اور اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا اس حدیث مبارکہ سے واضح ہو گیا کہ سب سے پہلے پانی اور پھر پانی پر عرش پیدا کیا گیا پھر قلم کی پیدائش ہوئی اس نے تقدیر تحریر کی پھر آسمان اور زمین کی تخلیق ہوئی اور جس حدیث میں آیا ہے کہ ابتدا میں قلم کو پیدا کیا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جہان کی مخلوقات میں سب سے پہلے اس کا نمر ہے نہ کے باقی تمام جہانوں کی مخلوقات میں پہلا نمبر ہے اور اس کا تذکرہ بخاری شریف کی اس حدیث میں ہے یمن سے آئے ہوئے ایک وفد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کہا ہم آپ کے پاس دین کی سمجھ اور ابتدائے خلق کے بارے میں پوچھنے کے لئے آئے ہیں لیکن سب سے پہلے کیا چیز تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تھا اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اس کا عرش پانی پر تھا پھر اس نے لوح محفوظ پر ہر چیز لکھ دی اور آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہعنی ابتدا میں پانی پر عرش تخلیق ہوئی پھر قلم کی پیدائش ہوئی اس نے سب کچھ لکھ دیا علماء کرام کا بیان ہے قلم کے فورا بعد لوح محفوظ کو پیدا کیا گیا چنانچہ قلم نے لوح محفوظ میں ہر چیز لکھ دی اس کے بعد کائنات کی باقی مخلوقات اور آسمانوں و زمین کی پیدائش معرض وجود میں آتی گئی اشیاء کی پیدائش والی ترتیب میں علمائے کرام کے کئی اقوال ہیں اور ہم نے آپ کے سامنے جمہور علماء اور فقہاء کی پسندیدہ اور راجہ ترتیب پیش کی ہے آسمان اور زمین میں مخلوقات کی ترتیب کیا ہے اس بارے میں امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی ہے وہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اللہ تعالی نے ہفتے کے دن مٹی کو پیدا کیا، اتوار کے دن زمین میں پہاڑ، پیر کے دن درخت، منگل کے دن تکالیف و مصائب جراثیم اور بیماریاں، بدھ کے دن نور کو، جمعرات کے دن زمین میں چوپایوں کو پھیلا دیا اور تمام مخلوقات نے جمعہ کے دن آخری گھڑیوں میں یعنی عصر سے رات کے درمیان میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیا مطلب یہ کی ابتدا میں جن مخلوقات کی تخلیق ہوئی ان میں سے آخری مخلوق انسان تھا اس حدیث میں مختلف حالات کو نہایت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے اس سے باخوبی پتہ چل گیا کہ ابتدائی مخلوقات کی ترتیب کیا تھی ان میں سے آخری نمر آدم علیہ السلام کا تھا جب کہ آدم علیہ السلام نسل انسانی میں سب سے پہلے اور تمام انسانوں کے باپ ہیں انسانوں سے پہلے فرشتے اور جنات پیدا ہوچکے تھے صاحب عقل مخلوقات میں سے پہلا نمبر فرشتوں کا دوسرا نمبر جنوں کا اور آخری نمبر انسانوں کا ہے فرشتوں کا اصل ٹھکانہ آسمان ہے اللہ تعالی سورہ شعراء کی آیت پانچ میں فرماتا ہے قریب ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے پھٹ پڑے اور تمام فرشتے اپنے رب کی تسبیح اور تحمید بیان کر رہے ہیں اور زمین والوں کے لئے استغفار کر رہے ہیں خبردار اللہ تعالی معاف کرنے والا رحمت کرنے والا ہے مسلم شریف میں ہے کہ سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرشتوں کو نور سے اور جنوں کو آگ سے پیدا کیا گیا اور آدم کو اس چیز سے پیدا کیا گیا جو تمہارے لئے بیان کر دی گئی یعنی مٹی سے فرشتوں کی تخلیق کے بعد جنوں کو پیدا کیا گیا جنوں کو بھی انسانوں سے پہلے پیدا کیا گیا تھا جیسا کہ اللہ تعالی نے سورہ حجر آیت نمبر ستائیس میں فرمایا اور اس سے پہلے جنات کو ہم نے لوہ والی آگ سے پیدا کیا جنات کے بارے میں بہت زیادہ آیات و احادیث موجود ہے اللہ تعالی فرماتا ہے اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا معارج آگ کے بڑھکتے شعلے کے کنارے کو کہتے ہیں گویا جنوں کوآگ کی جڑ سے نہیں بلکہ آگ کے شعلوں کے کنارے سے پیدا کیا گیا قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ابلیس شیطان کا قول نقل کیا ہے تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اسی طرح پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ اللہ نے فرمایا اور اس سے پہلے جنات کو ہم نے لوہ والی آگ سے پیدا کیا یہ ہے جنات کی اصل اور بنیاد ابلیس معلون بھی جنات میں سے ہے اور اس مسئلے میں کسی کو تردد اور شبہ نہیں ہونا چاہیے اسی لئے قرآن میں ہے اور ابلیس جنوں میں سے تھا مطلب یہ کہ وہ فرشتوں میں سے نہیں تھا حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ پلک جھپکنے کے برابر بھی فرشتوں کی جنس میں داخل نہیں ہوا اور نہ ہی وہ کبھی فرشتوں میں شمار ہوا ہے وہ جنات میں سے ہے کیونکہ اس نے خود اقرار کیا تھا کہ اللہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اگر وہ فرشتوں میں سے ہوتا تو اس وقت کہتا اے اللہ تو نے مجھے نور سے پیدا کیا ہے اس لئے ابلیس کا جن ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں آدم علیہ اسلام سے دو ہزار سال پہلے جنات پیدا کیے گئے وہ ہماری زمین پر رہائش پذیر تھے آہستہ آہستہ وہ فسق و فجور میں مبتلا ہوگئے جب وہ فتنہ فساد میں حد سے بڑھ گئے ناحق خون بہانے لگے تو اللہ تعالی نے ان کی طرف فرشتوں کا عظیم لشکر بھیجا ان سے جنات کی زبردست معرکہ آرائی ہوئی اس معرکہ آرائی میں فرشتوں نے جنات کو تہس نہس کردیا اور وہ سمندروں کے جزیروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے زمین کے ہر براعظم سے انہیں جلاوطن کر دیا گیا چونچے آج تک ان کا مسکن یہی جزیرے اور عظیم مراکز ہے یہ واقعہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے ہو چکا ہے احادیث مبارکہ میں ہے کی ابلیس معلون کا ایک تخت ہے اور وہ تمام جنات کا سردار اور حکمران ہے اس کا شاہی تخت پانی پر ہے اگر چہ اس کی متعین جگہ ہمیں معلوم نہیں یہاں تک ذکر تھا سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کا۔

 

تہذیب کی دنیا

جیسے ہی سورج افق پر طلوع ہوتا ہے، ہم ایک ایسے سفر کا آغاز کرتے ہیں جو سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور دلوں کو جوڑتا ہے۔ تہزیب کی دنیا میں خوش آمدید، جہاں روایت جدت سے ملتی ہے، اور قدیم حکمت جدید عجائبات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی