تجدیدِ کائنات



تجدید کائنات

کیوں، آخر کیوں، ہر طرف اتنے غم ہیں، کیوں دنیا بھر میں اتنے دکھ ہیں، استحصال، انسانی فروخت، جنگیں، غلامی، اور انسان کے بنائے ہوئے غیر منصفانہ قوانین، جن سے انسان کو ہی خطرہ ہے، صحت کا فقدان، نشہ، اجڑے گھر، دہشت، زلزلے، طوفان، قدرتی آفات، غصہ، آنسو، اور ازلی گناہ، موت، کوئی بھی ان غموں سے بچا نہیں، یہ سب ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، خدا نے ابتدا میں زمین اور آسمان کو پیدا کیا، اس کی بنائی ہوئی ہر چیز اچھی تھی، اس کے بعد اس نے مرد اور عورت کو پیدا کیا، ان کو اختیار دیا کہ، جنت میں جہاں سے چاہو، بے روک ٹوک کھاؤ پیو، لیکن ایک درخت کے پاس مت جانا، ورنہ تم ظاموں میں سے ہو جاؤ گے، اور کہا پھلو اور بڑھو، اور سب جانداروں پر حکومت کرو، اور ان پر اختیار رکھو، اور خدا نے کہا اس عدن میں میرے نام کو جلال دو، اور میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا، اور تمہیں برکت دوں گا، کچھ وقت تک باغ عدن میں سب صحیح رہا، لیکن اس کے بعد، آدم اور حوا شیطان کے کہے میں آ گئے، انہوں نے، اس درخت کا پھل کھا لیا، جس سے ان کو منع کیا گیا تھا، پھر ان کو عدن سے نکال دیا گیا، پھر آدم نے خدا سے معافی مانگی، خدا نے معاف کیا، اور آدم کو برکت دی، اس کے بعد صدیاں گزرتی گئی، پھر ایسا زمانہ آیا جس میں تباہی آگئی، اولاد آدم نے خدا کی اطاعت کرنے سے انکار کر دیا، وہ خدا، جو ان کو بنانے والا تھا، اس کی عبادت کرنا، اس کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا، وہ تمام تر طاقت کے خود مالک بننا چاہتے تھے، خدا کے بغیر وہ دنیا پر حکومت کرنا چاہتے تھے، وہ باغی ہوتے چلے گئے، اور خود کو دنیا کا مالک تصور کرنے لگے، اور اس طرح دنیا پر تاریکی کا آغاز ہوا، انسان اپنے بنانے والے سے باغی ہو گیا، اور سرکشی کرنے لگا، نہ وہ اس پر بھروسہ کرتے تھے، نہ وہ اس کو جانتے تھے، اور وہ اپنے تصوراتی خدا تخلیق کرنے لگے، لکڑی کے، اور پتھر کےخدا، ایسے خدا جو نہ بول سکتے تھے، نہ سن سکتے تھے، نہ دیکھ سکتے تھے، ایسے خدا، جو ساکت تھے، اور تاریکی دن بدن بڑھتی چلی گئی، اور انسانوں نے اپنے جیسے انسانوں پر ظلم شروع کر دیا، ایک دوسرے کو مارنے لگے، ایک دوسرے کو غلام بنانے لگے، قوموں نے دوسری قوموں پر حملہ شروع کیا، انصاف، زمین تلے دب گیا، دنیا میں لوگ غم سے رونے لگے، چلانے لگے، اور سوچنے لگے، کہ کیا کوئی امید ہے، سب تاریک ہو گیا، یہ دنیا خدا کی وہ دنیا نہیں تھی، زمین لعنتی ہوگئی، ہر جگہ کانٹے اور اونٹ کٹارے اگنے لگے، دنیا کا توازن بگڑنے لگا، خوشکی، عیرت، اور طوفان، سیلاب، زلزلے، دنیا اس درد میں تڑپنے لگی، جو ماں کو بچہ جنتے ہوئے ہوتا ہے، ہر طرف اندھیرا تھا، شرم تھی، ندامت، اکیلا پن، پریشانی، ناامیدی، اس بات کا ڈر، کہ اب کچھ تبدیل نہیں ہوگا، اندھیرا، اور موت ہر جگہ تھی، تب خالق نے دیکھا، اور اسے ملال ہوا، وہ انسان جس کو اس نے بطور اپنا خلیفہ، محبت سے خلق کیا تھا، اور دیکھا، اس کی بنائے ہوئے انسان نے، اپنے خالق کی خالقیت کو مٹی میں ملا دیا، اور بجائے بدلے میں محبت دینے کے، بغاوت جاری رکھی، مگر خدا اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا، اس نے زمین پر اپنا نائب چنہ، جس کو نوح کہتے ہیں، جس کے ذریعے انسانیت کو بچانا چاہا، لیکن انسانیت اپنے آپ میں مگن، خدا کو بھول چکی تھی، جب معاملہ حد سے گزر گیا، تو نوح نے دعا کی، خدا نے دعا کا جواب دیا اور ظالموں کو صفہ ہستی سے مٹا دیا، اور ایمان والوں کو بچا لیا، دنیا گویا دوبارہ پیدا ہوئی تھی، اس کے بعد صدیاں گزرتی گئی، معاملہ اسی طرح چلتا رہا، آہستہ آہستہ لوگ ایک بار پھر، اس خدا کو بھول گئے، جس نے ان کو خلق کیا تھا، لیکن، خدا اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا،  اس کو اپنی مخلوق سے پیار تھا، اسے زمین پر ایک ایسا نائب لانا تھا، جس کے ذریعے دنیا کو بچایا جا سکے، اور انسان واپس خدا کی طرف آ سکے، اور ایک دن وہ اسے مل گیا، اس کا نام تھا ابراہیم، حضرت ابراہیم سچ کے متلاشی تھے، ان کا دل بے چین تھا، اردگرد سوموں عبادت گاہوں کو دیکھتے تھے، وہ جانتے تھے کہ پتھر کے بنائے ہوئے یہ خدا، جھوٹے ہیں، اور اصل خدا کوئی اور ہے، کوئی ایسا، جو عقل سے ماورا، اور علاقائیت اور ان بے جان بتوں سے کہیں آگے ہے، اصل خدا ایسا نہیں ہو سکتا، اصل خدا ایسی ساکت شکلوں کا نہیں ہو سکتا، جس کو خود انسان نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہو، جس کو مذہبی رہنما استعمال کرتے ہیں لوگوں کو بہکانے کے لئے، ابراہیم نے کہا، تم کون ہو خدا، تم کہاں ہو، اپنے اپ کو مجھ پر ظاہر کرو، اور ایک رات خالق کا جواب آیا، ابراہیم، ابراہیم، میں نے تمہیں متلاشی پایا، میں نے تمہارا دل دیکھا، اور اب میں تمہارے پاس ایا ہوں، میں اصل خدا ہوں، میں ہی ہوں تمام مخلوقات کا حقیقی خالق، اپنا آبائی علاقہ چھوڑ دو، چھوڑ دو اپنا خاندان اور رشتے دار، اور اس جگہ جاؤ، اس زمین پر، جہاں میں تمہیں ایک عظیم قوم بناؤں گا، میں تمہیں نوازوں گا اور، شہرت دوں گا، تم سب ہی لوگوں کے لئے برکت کا باعث بنو گے، اور میں تمہارے وسیلے سے دنیا کے تمام خاندانوں کو برکت سے نوازوں گا، اس دن وہ الفاظ، حضرت ابراہیم کی روح میں نقش ہو گئے، اور انہوں نے اپنے خاندانوں کو چھوڑ دیا، پھر کعنان کے سفر کا اغاز ہوا، یعنی وعدے کی سر زمین، اس جگہ کو جائے مقدس بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ خدا سب کو اسی زمین پر واپس لائے گا، حقیقی اور سچے خدا نے جو ابراہیم سے کہا، اس میں سب سے اہم بات یہی تھی، ابراہیم میں تمھارے وسیلے سے تمام قوموں، خاندانوں کو برکت سے نوازوں گا، خدا نے ابراہیم اور ان کی آل و اولاد کے ذریعے دنیا کو بحال کیا، یہ انقلاب تھا، ایک ایسا مختلف عمل تھا، آج سے پہلے خدا کسی سے ایسی طرح ہم کلام نہیں ہوا تھا، صدیاں گزرتی گئیں، اور حضرت ابراہیم کا خاندان ایک عظیم قوم کی صورت اختیار کرتا گیا، نبی اور رسول آتے گئے، اور اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے، دن گزرتے گئے، سال گزرتے گئے، وہ وقت پھر آ گیا، جب انسانیت بٹک چکی تھی، اپنے خدا کو بھول چکی تھی، حق گویا مٹ چکا تھا، ہر طرف اندھیرا تھا، انسان اپنے بچیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، اس اندھیری دنیا میں ایک بار بھر ایک ایسے نائب کی ضرورت تھی، جو لوگوں کو سیدھے رستے کی طرف واپس لائے، لوگوں کو اپنے خالق کا تعارف کرائے، اس وقت خاتم النبین حضرت محمد پیدا ہوئے، وقت گزرتا گیا، وہ وقت آن پہنچا، جب اللہ کی وحی محمد پر نازل ہوئی، امید کی کرن پھر دوبارہ پھوٹی، پھر اللہ نے محمد پر ایک کتاب نازل کی جس کو قرآن کہتے ہیں، اب قیامت تک اللہ کا کلام لوگوں میں محفوظ رہے گا، اب اس کے ذریعے ہم سیدھے راستے کا تعین کر سکتے ہیں، اور خدا تک پہنچ سکتے ہیں، اس میں ہمارے ماضی، حال، اور مستقبل کی خبر دی گئی ہے۔

 

 


تہذیب کی دنیا

جیسے ہی سورج افق پر طلوع ہوتا ہے، ہم ایک ایسے سفر کا آغاز کرتے ہیں جو سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور دلوں کو جوڑتا ہے۔ تہزیب کی دنیا میں خوش آمدید، جہاں روایت جدت سے ملتی ہے، اور قدیم حکمت جدید عجائبات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی