حضرت نوح (ع) کی ہجرت کا معجزاتی سفر
آج،
ہم آپ کے ساتھ ایک دلچسپ کہانی شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی کہانی جو نسلوں پر
محیط ہے، اہم اسباق رکھتی ہے، اور اٹل ایمان کو ظاہر کرتی ہے۔ حضرت نوح کی ہجرت کی
ناقابل یقین کہانی۔ صدیوں پہلے کفر و فساد سے بھری سرزمین میں حضرت نوح علیہ
السلام رہتے تھے۔ وہ اللہ کی طرف سے چنا گیا، اسے اپنی قوم کی راہ راست پر لانے کا
کام سونپا گیا۔ لیکن ان کی انتھک کوششوں کے باوجود ان کا پیغام بہروں کے کانوں پر
نہ پڑا۔ صورت حال مخدوش ہو چکی تھی۔ اس مایوسی کے عالم میں، حضرت نوح نے دعا میں
اللہ کی طرف رجوع کیا، راہنمائی اور اس بے پناہ چیلنج کا حل تلاش کیا۔ اور جیسا کہ
تمام انبیاء کرتے ہیں، اس نے اپنے اٹل ایمان میں سکون پایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت
نوح علیہ السلام کی دعائیں سنیں اور انہیں ایک الہی تدبیر کے ساتھ جواب دیا۔ اللہ
تعالیٰ نے اسے ایک شاندار کشتی بنانے کا حکم دیا، ایک ایسی کشتی جو آنے والے سیلاب
سے مومنوں کی حفاظت کرے گا، جبکہ یہ انسانیت کے لیے ایک نئی شروعات کی علامت ہے۔
اور اسی طرح، اللہ کے وعدے پر غیرمتزلزل عزم اور بھروسے کے ساتھ، حضرت نوح نے کشتی
کی تعمیر کا بڑا کام شروع کیا۔ دن رات، اس نے انتھک محنت کی، اس کے ارد گرد لوگوں
کی ایک بھیڑ تھی جو اس کا مذاق اڑاتے اور طعنہ دیتے تھے۔ لیکن وہ ثابت قدم رہا،
اپنے مشن پر مرکوز رہا۔ آخر کار، برسوں کی محنت کے بعد، کشتی لمبی اور شاندار کھڑی
ہوئی، اب یہ کشتی آنے والی تباہی کا سامنا
کرنے کے لیے تیار ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام، ان کے اہل و عیال اور اہل ایمان، ہر
جانور کے جوڑے کے ساتھ، اللہ کے حکم کے مطابق اندر جمع ہوئے۔ جب کشتی میں سب ایمان
والے اور جاندار سوار ہو گئے، توآسمان کھل گیا، ایک موسلادھار بارش جاری ہوئی جس
نے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ زمین سے پانی ابل پڑا، یہ سیلاب بے لگام تھا،
کیونکہ زبردست سیلابی پانی کشتی کے علا وہ ہر چیز کو بہا کر لے گیا، کشتی افراتفری
کے درمیان امن سے تیر رہی تھی۔ چالیس دن اور راتوں تک حضرت نوح علیہ السلام اور
اہل ایمان کشتی میں سوار رہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظمت کا خود مشاہدہ کیا۔
انہوں نے دعا میں طاقت پائی، یہ جانتے ہوئے کہ یہ آزمائش ان کے ایمان اور ثابت
قدمی کا امتحان ہے۔ آخرکار بارش تھم گئی اور کشتی پہاڑ کی چوٹی پر ٹھہر گئی۔ حضرت
نوح اور ان کے پیروکار اللہ کی رحمت کے شکر گزار ہوتے ہوئے زرخیز زمین پر قدم
رکھتے ہیں۔ دنیا گویہ دوبارہ پیدا ہوئی تھی، ایک نئی شروعات کو قبول کرنے کے لیے
تیار تھی، ایک ایسے معاشرے کی تعمیر نو کا موقع جس کی جڑیں راستبازی پر ہیں۔ حضرت
نوح علیہ السلام کی ہجرت کا یہ واقعہ ہمیں ضروری سبق سکھاتا ہے۔ یہ ہمیں ایمان اور
عزم کی طاقت کی یاد دلاتا ہے، یہاں تک کہ مصیبت کے وقت بھی۔ یہ ہمیں دکھاتا ہے کہ
اللہ کے ساتھ ساتھ، ہم کسی بھی چیلنج پر قابو پا سکتے ہیں اور مضبوط ہو کر ابھر
سکتے ہیں۔ آج ہم حضرت نوح کے شاندار سفر پر غور کریں، اور ان کی کہانی ہمیں علم
حاصل کرنے، ایمان کو قبول کرنے اور اتحاد کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دے۔ ہمیں
اپنے وقت کی آزمائشوں سے اوپر اٹھنے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر دنیا
بنانے کا حوصلہ ملے۔ اس روحانی سفر میں میرے ساتھ شامل ہونے کا شکریہ۔