آزمائش کیا ہے۔ اور اس میں کیسے کامیاب ہوں؟

آزمائش کیا ہے۔ اور اس میں کیسے کامیاب ہوں؟


آزمائش کیا ہے۔ اور اس میں کیسے کامیاب ہوں؟

آزمائش کا اس وقت علم ہوتا ہے جب حالات سخت ہوں اور مصیبتوں میں انسان گِر جائے کہ کیا انسان صبر سے کام لیتا ہے یا ناشکری کرتا ہے، اسی طرح خوشحالی میں بھی آزمائش ہوتی ہے کہ انسان نعمتوں  کے ملنے پر شکر کرتا ہے یا نا شکری پر اتر آتا ہے۔ یہ غلط فہمی ہے کہ آزمائش کو صرف مصیبت کی صورت میں سمجھا جائے اور اس کے برعکس یہ سمجھا جائے کہ مصیبت میں جو شخص صبر کرے گا وہ ثواب پائے گا اور جو بےصبری سے کام لیتے ہوئے ناشکری کرے گا وہ گناہ اور سزا کا مستحق ہو۔

آزمائش کا اگر یہی مفہوم ہمارے ذہن میں ہے تو یہ جزوی مفہوم ہے مکمل نہیں ہے۔

مکمل مفہوم یہ ہے کہ آزمائش سے مراد امتحان ہے جو کہ محض مصیبت کی صورت میں نہیں ہوتا، امتحان انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ہوتا ہے، زندگی کا ہر گوشہ امتحانات سے بھر پور ہے، لہذا یہی وجہ ہے کہ زندہ رہے، بیمار ہو، صحت یاب ہو، خوشی ملے، دولت ملے، رزق ملے یہ سب امتحان ہیں حتی کہ اردگرد کا ماحول اور علم بھی امتحان ہے، اللہ تعالی ان سب امور میں انسان کے چال چلن کو پرکھتا ہے کہ وہ کامیاب ہو کر دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والوں میں شامل ہوتا ہے یا بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والوں میں شامل ہوتا ہے، رحمن کی اطاعت کرتا ہے یا شیطان کی پیروی کرتا ہے۔ اسی کے بارے میں خدا کہتا ہے

وہ ذات جس نے موت اور زندگی کو پیدا ہی اس لیے کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرنے والا ہے، وہی غالب اور بخشنے والا ہے۔

 

خدا پھر کہتا ہے

وہی ذات ہے جس نے تمہیں زمین کے وارث بنایا اور کچھ کو دوسروں پر فوقیت دی، تاکہ تمہیں آزمائے ان چیزوں کے ذریعے جو اس نے تمہیں عطا کی ہیں، بیشک تیرا رب جلد جزاوسزا دینے والا اور بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

ان تمام باتوں کے ذکر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امتحان ہی انسان کی تخلیق کا راز ہے اور اس امتحان میں بندگی بھی شامل ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص بندگی اپنے وسیع مفہوم کی صورت میں بجا لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہی کامیاب و کامران ہوگا، اور جس شخص سے بندگی میں کمی ہوئی تو اسی کمی کی مقدار کے برابر اس کا نقصان ہو گا۔

دنیا میں کسی بھی انسان کو سدا ایک جیسے حالات کا سامنا نہیں ہوتا۔ کسی بھی بشر کو حاصل ہونے والی خوشی دائمی ہوتی ہے نہ غم ، بلکہ کبھی غم ہے تو کبھی خوشی، کبھی درد و الم ہے تو کبھی فرحت و انبساط ، کبھی بیماری ہے تو کبھی صحت مندی، کبھی تفکرات و الجھنیں ہیں تو کبھی بے فکری و مسرت ، کبھی تنگی ہے تو کبھی آسودگی، کبھی سکون ہے تو کبھی بے چینی، کبھی سردی ہے تو کبھی گرمی، کبھی امن تو کبھی بدامنی۔ یہ تمام سلسلے ہر فرد کے ساتھ ہیں، کوئی بھی ان سے مبرا نہیں ہے۔

  

تہذیب کی دنیا

جیسے ہی سورج افق پر طلوع ہوتا ہے، ہم ایک ایسے سفر کا آغاز کرتے ہیں جو سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور دلوں کو جوڑتا ہے۔ تہزیب کی دنیا میں خوش آمدید، جہاں روایت جدت سے ملتی ہے، اور قدیم حکمت جدید عجائبات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی