انسانیت، وفا، اور تنہائی
زندگی
ایک ایسا سفر ہے جو ہر قدم پر دل کو دکھ دینے والی حقیقتوں سے بھرا ہوا ہے۔ انسان
نے نہ خود سے وفا کی، نہ کسی اور نے اس سے۔ جب سب کچھ بدل چکا تھا، تو کہا گیا:
"بیٹا، تم کامیاب ہو گے، سرخرو ہو گے۔" لیکن یہ سرخروئی بھی ایک دھوکہ
نکلی۔ حقیقت میں کچھ نہیں بدلا، خواب ٹوٹے، دل ٹوٹا، اور انسان اکیلا رہ گیا۔
قوموں کے مفادات میں انسانیت کہیں گم ہو گئی، اور انسان اپنے دکھوں کے بوجھ تلے
تنہا ہو گیا۔ وہ جو جنت کے خواب دیکھتا تھا، حقیقت میں خود کو تنہائی کے اندھیروں
میں پایا۔
سچ
ہمیشہ سے کڑوا اور بھاری رہا ہے۔ جب بے گناہوں کے دلوں کی دھڑکنیں رک جاتی ہیں، تب
بھی تنہائی انسان کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ لوگ اپنی کمزوریوں کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں
اور غلامی کو قبول کر لیتے ہیں، جیسے یہی ان کی قسمت ہو۔ انسان جب خود کو بڑا
سمجھنے لگتا ہے، تو وہ دوسروں کو نصیحتیں کرتا ہے، مگر اپنی زندگی کی تلخیوں سے بچ
نہیں پاتا۔
جو
شخص اپنی بربادی کی راہ پر چل رہا ہوتا ہے، وہ اپنے غرور کی قید میں رہتا ہے، اور
زندگی کی سختیاں اسے اندر سے توڑ دیتی ہیں۔ اصل سچ وہی ہے جو ایمان کا حصہ ہے، مگر
یہ سچ پانے کے لیے اس تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اللہ کے پیغمبر محمد نے غارِ حرا میں کی۔
زندگی
کا یہ سفر ایسا ہے جو دل کو زخمی کر کے آنکھوں میں اداسی بھر دیتا ہے۔ خوشیوں کا
تصور محض ایک فریب بن جاتا ہے، اور حقیقت میں صرف اداسی، درد اور تنہائی ہی باقی
رہ جاتی ہے۔