درد، صبر، اور یقین کا سفر
کیسے
بنتا ہے ایک انسان کہ اس کی اپنی چھوٹی سی دنیا اور پوری کائنات اس کے سینے میں زم
ہو جائے؟ کیسے ایک دل اتنا بوجھ سہار لیتا ہے کہ اس کی ہر دھڑکن درد کی آواز بن
جائے؟ وہ درد جو چیخ کر بھی خاموش رہتا ہے، وہ کس طرح اپنے وجود کی تمام انسانیت
کو غموں کے سمندر میں غرق کر دیتا ہے؟ یہ صبر ہے۔
وہ
صبر، جو خود کو ٹوٹتے دیکھ کر بھی آنکھوں سے آنسو بہنے نہیں دیتا۔ وہ صبر، جو ہر
سانس کے ساتھ دل پر چوٹ کی طرح اُترتا ہے۔ وہی چوٹ جو تمنا کے خنجر کی صورت میں سینے
میں گہرائی تک اُترتی ہے۔ وہ صبر، جو دل کی ہر چیخ کو اندر ہی اندر دفن کر دیتا
ہے۔ وہ صبر، جو دل کی شوریدہ بغاوتوں کو قابو میں رکھے، جو اس وقت کے خلاف ہو جب
خواب ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئے، جب وعدے صرف الفاظ بن کر رہ گئے، اور محبت کی وہ
چنگاری راکھ میں بدل گئی۔ وہ صبر، جو اس عشق کے خلاف ہو جو کبھی پایہ تکمیل تک نہ
پہنچ سکا۔ وہ حسن جو صرف خوابوں کی ایک جھلک رہا، وہ جمال جو دل کی گہرائیوں میں
کہیں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا۔
وہ
یقین، جو ہر بند دروازے کے بعد ایک نیا دروازہ کھولنے کی امید جگاتا ہے۔ جب ہر
راستہ بند ہو جائے، تو یہی یقین دل کو سنبھالے رکھتا ہے کہ اللہ کی رحمت ہمیشہ
موجود ہے۔ وہ یقین، جو دل کے اندر گہرائیوں میں چھپے درد کو پھر سے زندگی بخشتا
ہے، جو ہر تکلیف کے بعد دل کو نئی امید کا راستہ دکھاتا ہے۔
لیکن
یہ سفر آسان نہیں۔ ہر قدم پر نفس کی بغاوت، دنیا کی چمک اور دل کی خواہشات انسان
کو بے بس کر دیتی ہیں۔ صبر کی اصل آزمائش وہ ہوتی ہے جب انسان اپنے دل کی آواز کو
دبا کر، اپنے نفس کی خواہشات کو مار کر، ایک مضبوط ارادے کے ساتھ زندگی کو پھر سے
جینے کا فیصلہ کرتا ہے۔