جب زندگی شروع ہوگی ۔ قیامت کی منظر کشی

جب زندگی شروع ہوگی ۔ قیامت کی منظر کشی


جب زندگی شروع ہوگی ۔ قیامت کی منظر کشی

یہ میدان، یہ ویران زمین، یہ گمشدہ منظر، کچھ وقت پہلے تک اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ایک دن تھا جب یہ زمین سرسبز تھی، آسمان صاف نیلا تھا، پرندے چہچہا رہے تھے، ہوا میں خوشبو بکھری ہوئی تھی۔ پھر وہ وقت آیا، جب ہر منظر مٹ گیا، ہر نشان ختم ہو گیا۔ آج ہر طرف یہ بے رنگ، چٹیل میدان پھیلا ہوا ہے۔ کوئی سایہ، کوئی پناہ، کوئی امید نہیں۔ اوپر سرخ آسمان ہے، جو کسی خون کی مانند دہک رہا ہے۔ وہ سورج جو کبھی روشنی کا منبع تھا، آج آگ کی لپٹوں میں لپٹا ہے، گویا کسی بھڑکتے شعلے کا حصہ بن چکا ہو۔

یہ زمین اب وہ زمین نہیں رہی جس پر ہم جیتے رہے۔ وہ زمین جو ہمیں کبھی تحفظ دیتی تھی، اب ہمارے قدموں کے نیچے سے سرکتی جا رہی ہے۔ ہر قدم کے ساتھ، ہم اس خوف کی گہرائی میں ڈوبتے جا رہے ہیں، جس کا کوئی انت نہیں۔ آج کے دن، نہ کوئی روشنی ہے، نہ کوئی سایہ، نہ کوئی امن۔ سب کچھ بکھر چکا ہے۔

یہ منظر، یہ خوف، دلوں کو لرزا رہا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جس کا ذکر کرتے وقت لوگ کانپ جاتے تھے، مگر آج وہ لمحہ حقیقت بن چکا ہے۔ آج ہم اس دن کا سامنا کر رہے ہیں جس دن کا وعدہ کیا گیا تھا، جس دن کا یقین تو تھا مگر تیاری نہ تھی۔

آج وہی مجرم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جنہیں دنیا میں ہر آسائش میسر تھی، مگر وہ اپنے رب کو بھول بیٹھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی انا کے غرور میں مبتلا تھے، دنیا میں طاقت کے نشے میں مست تھے۔ آج وہی غرور، وہی طاقت، خاک ہو چکی ہے۔ آج نہ کوئی سلطنت بچی، نہ کوئی تاج، نہ کوئی تخت۔ آج ہر شخص برابر ہے— بس مجرم ہیں، جو اپنے انجام کی فکر میں لرز رہے ہیں۔ آج یہ دل، جو کبھی سنگین تھے، ندامت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ وہ قہقہے جو کبھی دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے تھے، آج بے بسی کے آنسو بن کر بہہ رہے ہیں۔

یہ وہی دن ہے جس کے بارے میں بار بار بتایا گیا تھا، جس کی خبر ہر نبی نے دی تھی، مگر ہم نے اسے بھلا دیا۔ ہم دنیا کی عارضی چمک میں گم ہو گئے، آخرت کی حقیقت کو نظر انداز کر دیا۔ آج وہ غفلت، وہ نافرمانی، ہمیں اس عذاب کا سامنا کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ آج کوئی مددگار نہیں، کوئی سفارش نہیں، کوئی راستہ نہیں۔ جو کچھ بویا تھا، وہی کاٹنا ہے۔ آج وہ کتاب کھل چکی ہے جس میں ہمارا ہر عمل لکھا ہے۔ آج ہمارا ایک ایک لمحہ ہمارے سامنے آ چکا ہے۔

کتنے سال گزر چکے ہیں، کسی کو اندازہ نہیں۔ یہ قیامت کا دن ہے، ایک ایسا دن جس کی گنتی انسان کے حساب سے نہیں ہوتی۔ ہر گزرتا لمحہ، ایک صدی کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ یہ وقت، یہ لمحے، جیسے رک گئے ہیں۔ ہر جانب شور ہے، آہ و بکا ہے، چیخیں ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر آج کوئی رشتہ، کوئی تعلق کام نہیں آ رہا۔ آج ہر شخص اپنی فکر میں ہے، ہر ایک کی نگاہیں خوف سے بھری ہوئی ہیں۔

یہ وہ لمحہ ہے جب اللہ کی عدالت لگے گی۔ وہ عدالت جہاں نہ جھوٹ چلے گا، نہ بہانے۔ جہاں ہر عمل، ہر نیت، کھول کر سامنے رکھی جائے گی۔ آج وہی لوگ جو اپنے آپ کو بے قصور سمجھتے تھے، اپنے اعمال کی گواہیوں کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہیں۔ آج وہی زبانیں جو دنیا میں دوسروں کو نیچا دکھانے میں تیز تھیں، خاموش ہیں۔ آج صرف آنکھیں بول رہی ہیں، آنسوؤں کے بہاؤ میں پچھتاوے کی داستانیں سنائی دے رہی ہیں۔

زندگی میں جو لمحے ہمیں دیے گئے تھے، وہی آج ہمارے امتحان کی بنیاد ہیں۔ وہ لمحے جن میں ہمیں اختیار دیا گیا تھا، وہی آج ہمارے فیصلے کا سبب بن رہے ہیں۔ جو کچھ ہم نے دنیا میں کیا، آج اسی کا حساب دینا ہے۔ اور حساب کی ترازو ایسی ہے کہ ذرا سی کمی یا زیادتی کا سوال ہو گا۔ آج وہی وقت آ چکا ہے جب ہمیں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔

آج ایک نئی زندگی شروع ہو چکی ہے، وہ زندگی جو کبھی ختم نہیں ہو گی۔ آج کا دن وہ دن ہے جب حقیقی فیصلے ہوں گے، جب نیک لوگوں کو خوشخبریاں ملیں گی اور مجرموں کو عذاب۔ آج وہ دن ہے جب ہر حقائق کا پردہ ہٹ جائے گا، ہر بھید کھل جائے گا۔ آج وہ دن ہے جس کا نام روزِ جزا ہے، وہ دن جس کی حقیقت سے کوئی مفر نہیں۔

اب انتظار ہے اُس رب کے ظہور کا، جس کے بعد کوئی سوال نہیں بچے گا، جس کے بعد کوئی جواب باقی نہیں رہے گا۔ آج، ہم سب کے نصیب کا فیصلہ ہو گا۔ آج ہم جانیں گے کہ کون کامیاب ہوا اور کون ناکام۔ آج وہ دن ہے، جب ہر حقیقت واضح ہو گی۔  یہ وہ دن ہے جب زندگی شروع ہو گی۔

  

تہذیب کی دنیا

جیسے ہی سورج افق پر طلوع ہوتا ہے، ہم ایک ایسے سفر کا آغاز کرتے ہیں جو سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور دلوں کو جوڑتا ہے۔ تہزیب کی دنیا میں خوش آمدید، جہاں روایت جدت سے ملتی ہے، اور قدیم حکمت جدید عجائبات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی