خوف، اندر کا ڈر
کہاں
ہے وہ خوف جس نے دل کی امیدوں کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے؟ جو اندر سے کہتا ہے کہ
اگر زندگی کے کسی موڑ پر گر گیا تو آگے کیسے بڑھوں گا؟ کیا وہ ناکامی کا ڈر ہے جو
خوابوں کی پرواز کو روک رہا ہے؟ یا یہ فکریں ہیں جو دل کی خوشیوں کو دبائے ہوئے ہیں؟
یہ سب وسوسے جنھیں دل میں جگہ دی گئی ہے، کیا وہ اس قابل ہیں کہ زندگی کو یوں روکا
جائے؟
زندگی
کا سفر ان چھوٹی باتوں میں الجھنے سے بڑا ہے۔ جہاں لوگ دوسروں کی زندگی میں مداخلت
کرتے ہیں، وہاں ایک انسان کی اصل شناخت اور خودی کو سمجھنا ضروری ہے۔ سچ تو یہ ہے
کہ یہ خوف صدیوں سے ہمارے اندر بٹھایا گیا ہے، تاکہ ہم اپنے اصل سے دور ہو جائیں۔
جو
لوگ خود ڈرتے ہیں، وہ دوسروں کو بھی ڈرا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر یاد رکھو، شیر کی
شان خاموشی میں ہوتی ہے، اس کی راہ میں آنے والے پتھر اور شور اسے روکتے نہیں بلکہ
اس کی عظمت کو بڑھا دیتے ہیں۔ جو انسان اپنے اندر کی خودی کو پہچانتا ہے، وہی اصل
میں بڑا انسان ہوتا ہے۔
زندگی
میں اپنی خودی کو بچائے رکھنا سب سے اہم ہے۔ لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو کر اپنے
آپ کو برباد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جب انسان اپنے آپ سے ملتا ہے، وہ اپنی حقیقت
جان لیتا ہے۔ اس کے بعد، لوگوں کی محتاجی، ان کی رائے، اور معاشرے کے پیمانے بےمعنی
ہو جاتے ہیں۔