زندگی کی مشکلات کا سامنا کیسے کریں؟ ۔ ایک ان کہی سچائی
اگر
ہم زندگی میں کبھی کسی مقام پر کھڑے ہو کر ثابت قدم نہ ہوئے، تو ہر قدم پر پیچھے
ہٹتے رہیں گے۔
یہ
وہ سچائی ہے جو ہمیں بار بار یاد دلانی پڑتی ہے، اپنے آپ کو سمجھانا پڑتا ہے۔ زندگی
ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے، جہاں ہر قدم پر ہماری قوت برداشت اور ایمان کا امتحان
لیا جاتا ہے۔ جب ہم اپنے دل کے سکون کی تلاش میں ہوتے ہیں، تو اکثر یہ سچائی ہمیں
تکلیف دیتی ہے کہ ہمیں اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے کی بجائے، اپنے معاملات اللہ کے
سپرد کر دینے چاہییں۔ معاشرے میں، خاص طور پر ہمارے جیسے ماحول میں، بے اولادی کا
درد ایک ایسی حقیقت ہے جسے شاید ایک عورت ہی پوری طرح محسوس کر سکتی ہے۔ وہ عورت
جو اپنی کوکھ کے خالی پن کو جھیل رہی ہوتی ہے، وہ دنیا کے سامنے مسکراتی ہوئی نظر
آتی ہے، لیکن اندر سے ٹوٹ رہی ہوتی ہے۔ مرد شاید کبھی اس غم کو مکمل طور پر نہ
سمجھ سکے، اور ہم وہ بات بھی نہیں کرتے، مگر اس درد کی شدت ہر اس لمحے محسوس ہوتی
ہے جب لوگ سوالات کرتے ہیں یا طنزیہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ہماری زندگی کا سفر
ہمارے اپنے دو قدموں پر منحصر ہے، اور جب ہم دین کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو دنیا ہمیں
دیکھ کر یہ سوچتی ہے کہ شاید ہم نے دنیا سے منہ موڑ لیا ہے، لیکن حقیقت میں ہم اب
بھی خواہشات، غلطیوں اور امیدوں کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ دنیا ہمیں بے بس دیکھنا
چاہتی ہے، وہ کہتی ہے کہ تمہاری دنیا داری ختم ہو چکی ہے، تمہیں اب صرف اللہ کی
طرف دیکھنا چاہیے، لیکن کیا یہ آسان ہے؟ جب ہم کسی بڑے مقصد کی طرف قدم بڑھاتے ہیں،
تو مشکلات اور رکاوٹیں سامنے آتی ہیں، ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن کیا
یہ تنقید ہی ہمیں مضبوط نہیں کرتی؟ ہم نے دیکھا ہے کہ عظیم لوگ ہمیشہ انہی رکاوٹوں
کا سامنا کرتے ہیں، اور ان میں سے کچھ تو اپنی جان تک ہار دیتے ہیں، لیکن ان کی
جدوجہد انہیں امر کر دیتی ہے۔
دنیا
میں ہر کسی کا ایک الگ سفر ہوتا ہے، کوئی اپنی بقا کے لیے لڑ رہا ہوتا ہے، کوئی
اپنی عزت کے لیے، کوئی اپنے حقوق کے لیے۔ ہر انسان کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب
وہ یہ سوچتا ہے کہ شاید اس کا دکھ سب سے بڑا ہے، کہ جو تکلیف وہ جھیل رہا ہے، وہ
کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔ لیکن کیا یہ حقیقت ہے؟ کیا ہم واقعی سب سے زیادہ تکلیف میں
ہیں؟ جب ہم خود اپنے درد کو جھیلتے ہیں، تو ہمارا دل اور نرم ہو جاتا ہے، ہم
دوسروں کے دکھ کو زیادہ گہرائی سے محسوس کرنے لگتے ہیں۔ جو لوگ حقیقی جدوجہد اور
مشکلات سے گزر چکے ہوتے ہیں، وہ دوسروں کے درد کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہیں، اور
وہ جانتے ہیں کہ ہر کسی کی تکلیف کا ایک اپنا مقام ہوتا ہے۔ اس سفر میں ہمیں سیکھنا
ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو مضبوط رکھنا ہے، اپنے ایمان کو مضبوط رکھنا ہے، کیونکہ
یہی وہ طاقت ہے جو ہمیں اپنے مقصد کی طرف بڑھنے کی ہمت دیتی ہے۔ ہم اکثر سوچتے ہیں
کہ ہم ہی کیوں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سوال ہی ہمیں کمزور کرتا ہے۔ اصل مضبوطی یہ
ہے کہ ہم اپنے حالات کا سامنا کریں، اور اپنے درد کو ایک ایسے مقام پر لے جائیں
جہاں سے عظمت اور کامیابی کی روشنی پھوٹتی ہے۔
زندگی
کے اس سفر میں، جب ہم اپنی جدوجہد کی انتہا پر پہنچتے ہیں، تو کامیابی کا احساس
صرف اس وقت آتا ہے جب ہم نے اپنے ہر لمحے کو صبر، استقامت اور یقین کے ساتھ گزارا
ہو۔ اس پورے عمل میں، ہمیں کبھی کبھار صرف ایک تسلی کی ضرورت ہوتی ہے، ایک لفظ کی،
ایک جملے کی، جو ہمیں یہ یقین دلائے کہ ہم ٹھیک ہیں، ہم اپنے راستے پر ہیں، اور ہم
وہ لوگ ہیں جو ہمت اور حوصلے سے اور اللہ کی مدد سے اپنی تقدیر لکھتے ہیں۔