کیا خدا کا کلام ہندوؤں کو کافر کہتا ہے؟ جانیں حقیقت
خدا
کے کلام میں کافر کا استعمال ان لوگوں کے
لیے کیا گیا ہے جو اللہ کی وحدانیت اور رسولوں کی تعلیمات کا انکار کرتے ہیں۔ اس
کا مقصد کسی کو گالی دینا یا حقیر سمجھنا نہیں ہے بلکہ ایمان اور عدم ایمان کے فرق
کو واضح کرنا ہے۔ کافر ایک اسلامی اصطلاح ہے یہ ان لوگوں کی وضاحت کے لیے استعمال
ہوتا ہے جو اسلام کے پیغام کو قبول نہیں کرتے۔
کافر
کسی خاص قوم یا مذہب کے لیے نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو
اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسولوں پر ایمان نہیں لاتے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی
مذہب سے ہو۔
اللہ
کے کلام کا مقصد لوگوں کو تنبیہ کرنا اور حق کی طرف بلانا ہے، نہ کہ ان کی توہین
کرنا۔
اللہ
نے انسانوں کو عزت دی ہے اور ان کے درمیان فرق نہیں کیا۔
اللہ
کہتا ہے کہ: اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں
اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں
سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔
اس
سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں انسانیت کی بنیاد پر سب کے ساتھ مساوی سلوک کی تعلیم
دی گئی ہے۔
اللہ
کے کلام میں کئی جگہ پر دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور عدل کی تعلیم دی
گئی ہے۔
اللہ
کہتا ہے کہ: اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا جو
تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کرتے اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیتے
ہیں۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا کلام غیر
مسلموں کے ساتھ انصاف اور نیکی کی تعلیم دیتا ہے۔
اللہ
کے کلام میں لفظ کافر کا مقصد کسی کی توہین نہیں بلکہ ایمان اور عقیدے کی وضاحت
ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ دوسرے مذاہب اور قوموں کے ساتھ حسن سلوک اور عدل کا مظاہرہ
کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے کلام کی تعلیمات انسانیت، اخلاقیات، اور عدل و
انصاف پر مبنی ہیں، اور کسی کو گالی دینے یا حقیر سمجھنے کی اجازت نہیں دیتیں۔