انسانی عظمت اور خدائی امانت کا چیلنج ۔ انسان کی کہانی
انسانی
تاریخ میں ہمیشہ سے ہی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے عظمت کی بلندیوں تک پہنچنے کا
جذبہ شامل رہا ہے۔ پہاڑوں کو سر کرنا ہو یا سمندروں کو پار کرنا، انسان نے ہمیشہ
اپنے عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مشکلات سے گھبرا کر پیچھے ہٹنے کی بجائے، اس نے
انہیں چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور ان پر فتح حاصل کی۔ یہ عزم و ہمت اور مشکلات کا
سامنا کرنے کی صلاحیت انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔
یہی
فطرت اس وقت بھی موجود تھی جب خالق کائنات نے تمام مخلوقات کو یہ موقع فراہم کیا
کہ وہ خدا کی امانت کا بوجھ اٹھا کر جنت کی عبدی بادشاہی حاصل کریں۔ جب آسمان، زمین،
اور پہاڑوں نے اس امانت کے بوجھ کو دیکھا تو وہ خوف سے لرز اٹھے اور پیچھے ہٹ گئے،
کہ یہ بوجھ اتنا عظیم تھا کہ وہ اسے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ ان کی عظمت،
ان کے جلال، اور ان کی قدرت کے باوجود، وہ اس بوجھ کے سامنے بے بس ہو گئے۔
مگر
اس وقت ایک ناتواں مخلوق نے قدم آگے بڑھایا۔ یہ مخلوق کوئی اور نہیں، بلکہ انسان
تھا۔ وہ انسان جسے خدا نے اپنی خلقت کا تاج پہنایا تھا۔ یہ انسان ہی تھا جس نے اس
عظیم چیلنج کو قبول کیا اور خدا کی امانت کو اٹھانے کے لیے تیار ہوا۔ اس نے یہ
بوجھ اٹھا کر خدا کی جنت کی عبدی بادشاہی حاصل کرنے کی کوشش کی۔
انسان
کی کہانی دراصل ایک ایسے حقیر باسی کی کہانی ہے جس نے زمین پر رہتے ہوئے آسمانی
رفعتوں کو پالینے کا خواب دیکھا۔ وہ جس کی تخلیق ایک ذرے سے بھی کمتر سمجھی جاتی
تھی، اس نے اپنی محنت، عزم، اور اللہ کی مدد سے پہاڑوں سے بلند تر مقام حاصل کرنے
کی خواہش کی۔ یہ کہانی ہے اس انسان کی جس نے ناممکن کو ممکن بنانے کی جستجو کی، جس
نے اپنی زندگی کو ایک عظیم مقصد کے لیے وقف کیا، اور جس نے اس مقصد کی راہ میں آنے
والی ہر رکاوٹ کو عبور کرنے کا عہد کیا۔
اب
ذرا سوچیں، کیا آپ نے کبھی پہاڑ کو پتھر مارا ہے؟ جب آپ پہاڑ کو پتھر مارتے ہیں،
تو کیا ہوتا ہے؟ کچھ بھی نہیں، پہاڑ آپ کے پتھر کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ مگر کیا
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑ ہمیشہ خاموش رہے گا؟ یہ اصولی فیصلہ شاید صحیح نہ ہو۔ یہ
سوچنے کی بات ہے کہ پہاڑ اور پتھر کا انسان کی کہانی سے کیا تعلق ہے؟
دراصل،
جب انسان خدا کی عطا کردہ امانت اور اختیار کو پا کر خدا کو بھول جاتا ہے اور اس
امانت کو غلط استعمال کرتا ہے، تو یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے پہاڑ کو پتھر مارنا۔
خدا نے انسان کو زمین کا اقتدار دیا، اور انسان نے اس اختیار کا استعمال کبھی شرک
کی صورت میں کیا، کبھی الحاد کی صورت میں، اور کبھی اپنے نفس کی پیروی میں۔ مگر
خدا نے اپنے منصوبے کے مطابق کبھی کسی مشرکانہ گالی یا ملحدانہ سنگ باری پر کوئی
براہِ راست جواب نہیں دیا۔
یہی
وہ خاموشی ہے جو خدا کے کائناتی منصوبے کا حصہ ہے، نہ کہ اس کے نہ ہونے کا ثبوت۔
خدا کی دیگر تمام مخلوقات یہ بات سمجھتی تھیں کہ خدا کے سامنے رہ کر، جب اس کی فوری
پکڑ کا امکان نہ ہو، تو سرکشی اور غفلت سے بچنا بہت مشکل ہے۔ مگر انسان نے یہ خطرہ
مول لیا اور آج وہ خدا کو شرک اور الحاد کی گالی دیتا ہے۔ وہ جس دنیا کو چھوڑ کر
جانا ہے، اسی کو جنت بنانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے دل کو دنیا کی محبت سے
بھرتا ہے، اور وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جس روز غیب کا پردہ اٹھے گا، وہ دن مجرموں کی
بربادی کا دن ہوگا۔
اس
دن انسان کو یہ سمجھ آئے گا کہ اس نے جو چیلنج قبول کیا تھا، وہ کتنا بڑا اور اہم
تھا۔ اس دن وہ جان لے گا کہ خدا کی امانت کا بوجھ اٹھانا صرف ایک اعزاز نہیں تھا،
بلکہ یہ ایک ذمہ داری بھی تھی۔ اور وہ دن انسان کی قسمت کا فیصلہ کرے گا کہ اس نے
اس ذمہ داری کو کس حد تک نبھایا ہے۔
انسان
کی کہانی، دراصل، ایک مسلسل جدوجہد کی کہانی ہے۔ یہ جدوجہد اس کے ایمان، اس کی
ہمت، اور اس کی عظمت کو جانچنے کا ایک مسلسل عمل ہے۔ یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے
کہ انسان کا مقام صرف زمین پر نہیں، بلکہ آسمانوں کی بلندیوں میں بھی ہے۔ اور اس
مقام کو پانے کے لیے، اسے خدا کی راہ میں صبر، محنت، اور عزم سے کام لینا ہوگا۔