ہمارے وجود کا مقصد کون طے کرتا ہے؟

ہمارے وجود کا مقصد کون طے کرتا ہے؟


ہمارے وجود کا مقصد کون طے کرتا ہے؟

آج کا ایک ایسا سوال ہے جو صدیوں سے انسانی ذہن کو الجھاتا آ رہا ہے، ہمارے وجود کا مقصد کون طے کرتا ہے؟ کیا ہم خود اپنے وجود کا مقصد طے کرتے ہیں؟ یا کوئی اور ہے جو ہمارے لیے یہ مقصد طے کرتا ہے؟ آئیے، اس سوال کو مثالوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

پہلی مثال۔ قلم اور لکھائی

فرض کریں آپ کے پاس ایک قلم ہے۔ قلم کا بنیادی مقصد لکھنا ہے۔ یہ مقصد کس نے طے کیا؟ ظاہر ہے، قلم بنانے والے نے۔ قلم کو بنانے والا جانتا تھا کہ اس کی تخلیق کا مقصد لکھنا ہے، نہ کہ اسے کھانے یا کسی اور کام کے لیے استعمال کرنا۔ اگر کوئی قلم کو کھانے کی کوشش کرے، تو وہ نہ صرف اس کا غلط استعمال کر رہا ہے بلکہ قلم کا مقصد بھی پورا نہیں ہو رہا۔

یہی اصول انسان کے وجود پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہم اپنے وجود کا مقصد خود سے طے نہیں کر سکتے۔ جس ذات نے ہمیں پیدا کیا ہے، اسی نے ہمارے وجود کا مقصد بھی طے کیا ہے۔ جیسے قلم بنانے والے نے قلم کا مقصد طے کیا، ویسے ہی ہمارا خالق ہمارے وجود کا مقصد طے کرتا ہے۔

 

دوسری مثال۔ مشین اور مینول

فرض کریں آپ کو ایک پیچیدہ مشین ملتی ہے۔ یہ مشین آپ کے لیے نئی ہے، اور آپ کو اس کا استعمال سمجھ میں نہیں آتا۔ ساتھ میں اس کے مینول کی کتاب بھی موجود ہے، جسے پڑھ کر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ یہ مشین کیسے کام کرتی ہے اور اسے کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

اسی طرح، اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری رہنمائی کے لیے کتابیں اور انبیاء بھیجے۔ قرآن مجید اور دیگر الہامی کتابیں ہمارے لیے وہ مینول ہیں جن میں ہمارے وجود کا مقصد اور ہماری زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ بتایا گیا ہے۔ جیسے آپ مشین کا مینول پڑھ کر اسے صحیح طریقے سے استعمال کرتے ہیں، ویسے ہی ہمیں اپنی زندگی کو الہامی کتابوں کی روشنی میں گزارنا چاہیے۔

 

تیسری مثال۔ ملاح اور کشتی

فرض کریں آپ ایک کشتی پر سوار ہیں اور آپ سمندر کے درمیان ہیں۔ اگر کشتی میں کوئی ملاح نہ ہو اور آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ کہاں جانا ہے، تو آپ بس بے مقصد سمندر کی لہروں میں بہتے رہیں گے۔ ملاح کا مقصد آپ کو ساحل پر صحیح طریقے سے پہنچانا ہے۔

انسان کی زندگی بھی ایسی ہی ایک کشتی کی مانند ہے، اور ہمارا مقصد ہمارے خالق نے طے کیا ہے۔ اگر ہم اپنے مقصد سے لاعلم ہوں یا اس کو ماننے سے انکار کر دیں، تو ہم زندگی کی لہروں میں بس ادھر اُدھر بھٹکتے رہیں گے۔ ہمارا مقصد ہمیں اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے ایک اچھا اور بامقصد زندگی گزارنے کی طرف لے جاتا ہے۔

 

چوتھی مثال۔ فطرت اور قوانین

اگر ہم قدرت کو دیکھیں تو ہمیں ہر چیز میں ایک مقصد نظر آتا ہے۔ سورج کا طلوع ہونا، درختوں کا اگنا، سمندر کی لہریں۔ یہ سب اللہ کے طے کردہ قوانین کے مطابق چلتے ہیں۔ ایک درخت کا مقصد سایہ دینا، پھل دینا اور ہوا کو صاف کرنا ہے، یہ مقصد اللہ نے طے کیا ہے۔

ہم انسان بھی اللہ کی مخلوق ہیں، اور ہماری زندگی کا مقصد بھی اسی نے طے کیا ہے۔ جس طرح درخت اپنے مقصد کو پورا کرتا ہے، اسی طرح ہمیں بھی اللہ کے دیے ہوئے مقصد کے مطابق اپنی زندگی گزارنی چاہیے۔

 

بانچویں مثال۔ مٹی کا برتن اور کمہار

فرض کریں کہ آپ ایک مٹی کے برتن کو دیکھتے ہیں جو بڑی خوبصورتی سے بنایا گیا ہے۔ اس برتن کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ مٹی کا ڈھیر خود بخود اس شکل میں آیا ہے؟ یا کسی نے اس کو سوچ سمجھ کر بنایا ہے؟ یقیناً یہ کسی کمہار کے ہاتھوں سے تخلیق ہوا ہے، اور اسی کمہار نے اس کا مقصد بھی طے کیا ہے کہ یہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ہے یا کھانا پکانے کے لیے۔

یہ مثال ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جس طرح ایک مٹی کا برتن خود سے اپنی تخلیق اور مقصد طے نہیں کر سکتا، ویسے ہی ہم بھی اپنے وجود کا مقصد خود سے نہیں طے کر سکتے۔ ہمارا خالق، یعنی اللہ تعالیٰ، وہ ذات ہے جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہمارے وجود کا مقصد طے کیا۔

 

چھٹی مثال۔ کار اور انجینئر

ایک اور مثال لیتے ہیں۔ فرض کریں آپ کے پاس ایک خوبصورت اور جدید کار ہے۔ یہ کار بڑی محنت سے تیار کی گئی ہے، اور اس کا ہر پرزہ بہترین انداز میں کام کرتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ کار خود اپنے لیے کوئی راستہ چن سکتی ہے؟ کیا یہ اپنے استعمال کا فیصلہ کر سکتی ہے؟ بالکل نہیں۔ اس کا مقصد اور استعمال اس کے انجینئر اور ڈیزائنر نے پہلے سے طے کر رکھا ہے۔

اسی طرح، ہمارا جسم اور روح اللہ کی تخلیق ہے۔ جیسے کار کا مقصد ڈیزائنر طے کرتا ہے، ویسے ہی ہمارے وجود کا مقصد اللہ تعالیٰ نے طے کیا ہے۔ ہمارا وجود بے مقصد نہیں ہے۔ اس کا ایک واضح اور معقول مقصد ہے، جو اللہ کے احکامات پر عمل کرنا اور اس کی بندگی کرنا ہے۔

 

 جب ہم اپنے وجود کا مقصد خود سے طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے قلم کو اس کے اصل مقصد کے علاوہ کسی اور کام کے لیے استعمال کرنا۔ ہمارے وجود کا مقصد طے کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اللہ نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا، اور ہمارے ہر عمل کا حساب قیامت کے دن لیا جائے گا۔

پس، ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کے دیے ہوئے مقصد کو سمجھیں، اس پر عمل کریں، اور اپنی زندگی کو اس کے احکامات کے مطابق گزاریں تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں۔

  

تہذیب کی دنیا

جیسے ہی سورج افق پر طلوع ہوتا ہے، ہم ایک ایسے سفر کا آغاز کرتے ہیں جو سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور دلوں کو جوڑتا ہے۔ تہزیب کی دنیا میں خوش آمدید، جہاں روایت جدت سے ملتی ہے، اور قدیم حکمت جدید عجائبات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی