مشکلات میں صبر ۔ زندگی میں استقامت کے اسلامی اصول
صبر
کیا ہے، صبر وہ راستہ ہے جو ہمیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے،
اور وہ ذریعہ ہے جس سے ہم اپنی آزمائشوں کو کامیابی میں بدل سکتے ہیں۔
دنیا
میں ہر انسان اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ کبھی یہ
مشکلات مالی ہوتی ہیں، کبھی صحت کی، اور کبھی دل کی، جو سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی
ہیں۔ لیکن اس وقت جب ہماری امیدیں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں، جب ہمارا دل بکھر رہا ہوتا
ہے، کیا ہم صبر کرتے ہیں؟ یا ہم اللہ کی حکمت کو بھلا کر مایوسی کے سمندر میں ڈوب
جاتے ہیں؟
آج
جب ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں، تو ہمیں ہر طرف بے صبری، جلد بازی، اور شکایتیں نظر
آتی ہیں۔ ہم ہر حال میں فوری نتائج چاہتے ہیں، فوری خوشی چاہتے ہیں، اور جب ہمیں
وہ چیز نہیں ملتی جس کی ہم تمنا کرتے ہیں، تو ہم دل میں کڑواہٹ محسوس کرنے لگتے ہیں۔
ہم اکثر سوچتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں کیوں آزمایا؟ یہ کیوں ہوا؟ اور کب تک؟ لیکن کیا
یہ سوالات صبر کرنے والوں کے ہیں؟ نہیں۔
یہ
وہ سوالات ہیں جو ایک بے صبر دل کرتا ہے، ایک ایسا دل جو اللہ پر بھروسہ کھو چکا
ہو۔
ہمیں
یہ سمجھنا ہوگا کہ صبر محض خاموشی سے انتظار کرنے کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک گہری
حالت ہے جو ہمارے دل و دماغ کو مضبوط بناتی ہے، جو ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم
مشکلات کو جھیلیں، اور دل سے اللہ کی مرضی کو قبول کریں۔ صبر کا مطلب یہ نہیں کہ
ہم ہار مان لیں یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔ نہیں! صبر کا مطلب ہے کہ ہم
اپنے اندر ایک اندرونی طاقت پیدا کریں، جو ہمیں ہر آزمائش میں ثابت قدم رکھے۔
کبھی
کبھی، ایک شخص اپنی زندگی میں مشکلات سے نبرد آزما ہوتا ہے، وہ دن رات محنت کرتا
ہے، دل میں یہ امید لیے کہ ایک دن حالات بدلیں گے۔ وہ سوچتا ہے کہ اس کے صبر کا
پھل ملے گا، لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے، کیا یہ واقعی صبر ہے؟ یا شاید وہ اس
انتظار میں ہے کہ کوئی دوسرا ناکام ہو، تاکہ وہ اس کی جگہ لے سکے؟
یہ
وہ لمحے ہیں جب ہمیں اپنے دل سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم واقعی صبر کر رہے ہیں؟ یا
ہم محض ایک موقع کی تلاش میں ہیں؟ صبر وہ نہیں جو دوسروں کی ناکامی پر خوش ہو، صبر
وہ ہے جو ہماری اپنی جدوجہد اور اللہ کی رضا میں پنہاں ہو۔
یاد
رکھیں، صبر اللہ کے قریب لے جانے کا ذریعہ ہے۔
اللہ
تعالی اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اور وہ کبھی انہیں بغیر مقصد کے تکلیف
میں مبتلا نہیں کرتا۔
حضرت
یعقوب علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو کھو دیا، تو ان کے دل
میں درد تھا، مگر وہ صبر کی حالت میں اللہ کی طرف رجوع کرتے رہے۔ انہوں نے اپنا غم
دنیا کے سامنے ظاہر نہیں کیا، بلکہ اسے اللہ کے حضور پیش کیا۔ یہی صبر کی حقیقی
مثال ہے۔
صبر
ایک آزمائش ہے، ایک تربیت ہے۔ جیسے ایک کسان زمین میں بیج بوتا ہے اور اسے صبر سے
پانی دیتا ہے، وہ جانتا ہے کہ پھل آنے میں وقت لگے گا، لیکن وہ ہر دن کی محنت کرتا
ہے۔ ویسے ہی ہماری زندگی کی آزمائشیں ہیں۔
یہ
صبر کا بیج ہیں جو ہم اپنے دل میں بوتے ہیں، اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک خوبصورت
درخت کی صورت میں پھل دیتے ہیں۔
یہ
دنیا ایک امتحان گاہ ہے، اور ہر امتحان کے بعد نتیجہ آتا ہے۔
ہمیں
یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ جب ہم اللہ کی رضا میں راضی ہوکر مشکلات کا
سامنا کرتے ہیں، تو اللہ ہمارے لیے راستے کھولتا ہے جو ہمیں پہلے نظر نہیں آتے۔
حضرت
ایوب علیہ السلام کی مثال لیجیے، جنہوں نے اپنی زندگی کی سخت ترین بیماریوں کو
اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کیا۔ ان کا صبر اللہ کے نزدیک اس قدر عظیم تھا کہ اللہ
نے انہیں نہ صرف صحت عطا کی بلکہ مال و دولت اور خوشیوں سے بھی نوازا۔
آج
ہم سب کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر ہم اپنے دل کو صبر کی حالت میں رکھیں، تو اللہ
ہمارے لیے بہت سی ایسی نعمتیں تیار کر چکا ہے جن کا ہم ابھی تصور بھی نہیں کر
سکتے۔
لیکن
صبر کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی جدوجہد روک دیں، بلکہ ہمیں اپنی محنت جاری رکھنی
چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے کہ وہ ہمیں بہترین اجر دے
گا۔
صبر
ایک ایسی نعمت ہے جو ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب کرتی ہے۔
آزمائشیں
اور مشکلات ہمارے ایمان کو مضبوط کرتی ہیں اور ہمیں اللہ کے قریب لاتی ہیں۔
یاد
رکھیں، دنیا کی خوشیاں عارضی ہیں، لیکن اللہ کے ساتھ کا احساس دائمی اور لافانی
ہے۔
اس
لیے اپنی ہر پریشانی کو اللہ کے سامنے رکھیں، اور اس کے فیصلوں پر بھروسہ کریں۔
اللہ کے بندے بنیں، جو صبر کرتے ہیں، جو اس کی حکمت کو سمجھتے ہیں، اور جو ہر حالت
میں اس کے شکر گزار رہتے ہیں۔